DilSeBatein.Com – Your gateway to heartfelt connections! Easy to remember, simple to share, and designed to inspire meaningful exchanges.

From ancient fables to modern narratives, our moral stories are crafted to instill virtues like patience, respect, and perseverance in a fun and engaging way.
Educational Stories

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بلند پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں میں آریان نام کا ایک تجسس بھرا لڑکا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ پہیلیاں حل کرنے اور دنیا کے بارے میں سوالات پوچھنے کے لیے مشہور تھا۔ ایک دن آریان کو اپنے دادا کے اٹاری میں ایک پرانا، دھول بھرا قطب نما ملا۔ یہ عام قطب نما نہیں تھا—اس کی سوئی شمال کی طرف نہیں دکھاتی تھی۔ بلکہ، یہ گھومتی اور کسی انوکھی چیز کی طرف اشارہ کرتی۔

دلچسپی سے بھرپور، آریان نے یہ قطب نما اپنے دادا کو دکھایا۔ دادا مسکرائے اور بولے، "یہ عام قطب نما نہیں ہے۔ یہ ایک مہربانی کا قطب نما ہے۔ یہ اپنے حامل کو نیکی کرنے کے مواقع کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھو، عمل کرنے کا فیصلہ ہمیشہ تمہارا ہوگا۔"

آریان خوش ہو گیا اور اس نے قطب نما کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگلی صبح، وہ ایک مہم پر نکلا۔ جلد ہی، سوئی گھومی اور گاؤں کے کنویں کی طرف اشارہ کرنے لگی۔ جب آریان وہاں پہنچا تو اس نے ایک بوڑھی عورت کو پانی کی بالٹی کھینچنے میں مشکل کا سامنا کرتے دیکھا۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، اس نے جا کر مدد کی۔ بوڑھی عورت نے مسکراتے ہوئے کہا، "شکریہ، بیٹے۔ تمہاری مہربانی بادلوں کے دنوں میں دھوپ جیسی ہے۔"

قطب نما دوبارہ گھوما، اس بار جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے۔ آریان نے اس سمت میں قدم بڑھائے اور جلد ہی ایک پرندے کو دیکھا جو کانٹے دار جھاڑی میں پھنس گیا تھا۔ احتیاط سے، اس نے پرندے کو آزاد کیا اور دیکھا کہ وہ خوشی سے چہچہاتے ہوئے اُڑ گیا۔

جب آریان نے قطب نما کی ہدایت پر عمل جاری رکھا تو اس نے ایک حیرت انگیز بات نوٹ کی۔ ہر نیکی جو اس نے کی، وہ ایک لہر کی طرح پھیلتی گئی۔ بوڑھی عورت نے اپنے اضافی سبزیاں ایک پڑوسی کے ساتھ بانٹ دیں۔ آزاد پرندہ ایک گھونسلے میں تنکوں کو لے گیا جہاں انڈے محفوظ تھے۔ آریان نے محسوس کیا کہ اس کے چھوٹے اعمال بڑے اثرات پیدا کر رہے ہیں۔

ایک دن، قطب نما مکمل طور پر گھومنا بند ہوگیا۔ آریان نے الجھن میں اپنے دادا کے پاس لوٹ کر کہا، "یہ خراب ہو گیا ہے۔"

دادا ہنسے اور بولے، "نہیں، آریان۔ یہ خراب نہیں ہوا۔ یہ اپنا کام مکمل کر چکا ہے۔ یہ قطب نما تمہیں راستہ دکھانے کا ایک ذریعہ تھا، لیکن اب مہربانی تمہارے دل میں بس گئی ہے۔ اب تمہیں رہنمائی کے لیے سوئی کی ضرورت نہیں؛ تم خود رہنما بن گئے ہو۔"

اس دن کے بعد، آریان نے قطب نما کی مدد کے بغیر ہی نیکی کے مواقع تلاش کرنا شروع کر دیے۔ اس کا گاؤں ایک روشن اور خوشحال جگہ بن گیا، صرف ایک لڑکے اور اس کی پھیلائی گئی مہربانی کی وجہ سے۔

اور یوں آریان نے سیکھا کہ مہربانی، ایک قطب نما کی طرح، ہمیشہ ہمیں صحیح راستے پر لے جاتی ہے۔

کہانی کا سبق:
چھوٹے چھوٹے مہربانی کے اعمال گہرے اثر ڈال سکتے ہیں، اور ان کی لہریں دور تک پھیل سکتی ہیں۔

تعلیمی کہانیاں ایسی داستانیں ہیں جو علم، ہنر یا اقدار کو سکھانے یا فراہم کرنے کے مقصد سے تیار کی گئی ہیں۔ خالصتاً دل لگی کہانیوں کے برعکس، ان کہانیوں کا مقصد روشن خیالی اور حوصلہ افزائی کرنا ہے، اکثر سامعین کو موہ لینے کے لیے دلکش پلاٹوں کے ساتھ اخلاقی اسباق کو ملایا جاتا ہے۔ تعلیمی کہانیوں کو ثقافتوں اور عمر کے گروپوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جو متعلقہ اور یادگار انداز میں بصیرت پیش کرتے ہیں۔

ہماری کہانیاں خالصتاً اخلاقی یا سبق آموز، حقیقی زندگی کے اطلاقات، قابل رسائی زبان اور یادگار کرداروں کی کلیدی خصوصیات پر مبنی ہیں۔ یہ کہانیاں سیکھنے اور نمو کے لیے طاقتور ٹولز ہیں، جو کہانی سنانے کی دلکشی کو بامعنی اسباق کے ساتھ جوڑتی ہیں۔ چاہے کیمپ فائر کے ارد گرد شیئر کیا گیا ہو، کلاس روم میں پڑھا گیا ہو، یا کسی کتاب میں لطف اٹھایا گیا ہو، یہ کہانیاں ذہنوں کو تشکیل دینے، عمل کو متاثر کرنے اور دیرپا اثر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں اور مقصد کو شامل کرکے، تعلیمی کہانیاں ہر عمر کے لوگوں میں تجسس اور سیکھنے کی محبت کو بھڑکا سکتی ہیں۔

مہربانی کا قطب نما - کہانی 01
دیانتدار سوداگر - کہانی 02

آریاپور کے پررونق شہر میں روہن نام کا ایک تاجر رہتا تھا جو اپنی شاندار کپڑوں کی دکان کے لیے مشہور تھا۔ اس کی دکان میں بہترین معیار کے ریشم، کپاس، اور اون دستیاب تھے۔ لوگ دور دراز سے اس کے مال خریدنے آتے تھے۔ اپنی کامیابی کے باوجود، روہن نہایت عاجز تھا اور انصاف پر یقین رکھتا تھا۔

ایک دن، ایک بوڑھی عورت اس کی دکان میں آئی۔ وہ کمزور نظر آتی تھی لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے ایک خوبصورت ریشمی اسکارف کی طرف اشارہ کیا اور قیمت پوچھی۔ روہن نے احتیاط سے اسکارف کو لپیٹا اور کہا، "یہ 200 سکے کا ہے، محترمہ۔" عورت نے اسے سکوں کی تھیلی دی اور خوشی خوشی وہاں سے چلی گئی۔

شام کو، جب روہن دکان بند کر رہا تھا، تو اس نے دن کی آمدنی گنی۔ اس دوران، اس نے دیکھا کہ اس عورت کی دی گئی تھیلی میں 300 سکے تھے، 200 کے بجائے 100 سکے زیادہ تھے۔

روہن کے ذہن میں کئی خیالات آئے۔ رات ہو چکی تھی، اور وہ آسانی سے یہ اضافی پیسے رکھ سکتا تھا۔ لیکن روہن کا ضمیر ایسا نہیں کرنے دے رہا تھا۔ اس نے سوچا، "ایمانداری کسی بھی رقم سے زیادہ قیمتی ہے۔"

اگلی صبح، روہن نے بوڑھی عورت کو تلاش کرنے کے لیے پورے شہر کا چکر لگایا۔ کئی گھنٹوں بعد، اس نے اسے ایک درخت کے نیچے آرام کرتے ہوئے پایا۔ نرمی سے قریب جا کر اس نے کہا، "محترمہ، آپ نے کل غلطی سے مجھے زیادہ پیسے دے دیے تھے۔ یہ آپ کے 100 سکے ہیں۔"

عورت حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی، اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "اپنی 70 سالہ زندگی میں، میں نے آپ جیسا ایماندار شخص کبھی نہیں دیکھا،" اس نے کہا۔ اس نے روہن کا بے حد شکریہ ادا کیا اور اس کے لیے دعائیں دیں۔

روہن کی ایمانداری کی خبر پورے آریاپور میں پھیل گئی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی دکان پر آنے لگے، نہ صرف اس کے کپڑوں کے لیے بلکہ اس اعتماد کے لیے جو اس نے حاصل کیا تھا۔ وقت کے ساتھ، اس کا کاروبار اور بھی زیادہ ترقی کرنے لگا، اور وہ پورے شہر کے لیے ایمانداری کی ایک مثال بن گیا۔

کہانی کا سبق:
ایمانداری ایک ایسی خوبی ہے جو نہ صرف احترام کماتی ہے بلکہ دیرپا اعتماد اور خوشحالی بھی لاتی ہے۔

ٹیم ورک کی طاقت - کہانی 03

گرین ویل کے پر سکون گاؤں میں، بچوں کا ایک گروپ اکثر گاؤں کے چوک کے بیچ ایک بڑے اور قدیم درخت کے قریب کھیلتا تھا۔ ایک گرمیوں کے موسم میں، انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کے مضبوط شاخوں پر ایک درخت کا گھر بنائیں گے۔ پرجوش ہو کر، انہوں نے سامان اکٹھا کرنا اور اپنے عظیم منصوبے پر کام شروع کیا۔

شروع میں، ہر بچہ الگ الگ کام کر رہا تھا۔ کچھ نے تختوں پر کیل ٹھوکنا شروع کیا، جبکہ دوسرے بغیر کسی مشورے کے دیواریں بنانے کی کوشش کرنے لگے۔ نتیجہ بہت خراب نکلا—لکڑی کے تختے صحیح طرح جُڑ نہیں رہے تھے، اور درخت کا گھر بار بار گر جاتا تھا۔ مایوسی بڑھنے لگی، اور بچوں میں جھگڑے ہونے لگے۔ کچھ بچوں نے تو چھوڑنے کا سوچا۔

یہ ہنگامہ دیکھ کر، گاؤں کے ایک بزرگ جنہیں دادا ٹام کہا جاتا تھا، بچوں کے پاس آئے۔ وہ ہلکے سے ہنسے اور بولے، "میرے پیارے بچوں، درخت کا گھر بنانا کسی ایک شخص کا کام نہیں۔ تمہیں ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ آؤ، میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں۔"

دادا ٹام نے ایک چھوٹی ٹہنی اٹھائی اور اسے آسانی سے توڑ دیا۔ پھر، انہوں نے کئی ٹہنیوں کو ایک گٹھری میں باندھا اور بچوں کو دیا۔ "اب، اس گٹھری کو توڑ کر دکھاؤ،" انہوں نے کہا۔ بچوں نے جتنا بھی زور لگایا، وہ گٹھری نہیں توڑ سکے۔

"دیکھا؟" دادا ٹام بولے۔ "اکیلا ایک تنکا کمزور ہوتا ہے، لیکن ایک ساتھ یہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ تمہارے لیے بھی یہی اصول ہے۔ اگر تم ایک ٹیم کے طور پر کام کرو گے تو کوئی کام مشکل نہیں ہوگا۔"

متاثر ہو کر، بچوں نے ایک منصوبہ بنایا۔ کچھ لکڑی جمع کرنے لگے، دوسرے اسے ناپ کر کاٹنے لگے، اور چند نے کیل ٹھوکنے شروع کیے۔ آہستہ آہستہ، درخت کا گھر بننے لگا۔ ہفتے کے آخر تک، انہوں نے ایک مضبوط اور خوبصورت درخت کا گھر بنا لیا، جس میں سیڑھی اور رنگین سجاوٹ بھی شامل تھی۔

بچے فخر سے چمک اٹھے۔ انہوں نے نہ صرف درخت کا گھر بنایا بلکہ ٹیم ورک کی اہمیت بھی سیکھی۔ اس دن کے بعد، انہوں نے ہر مشکل کو ایک ساتھ مل کر حل کیا، جانتے ہوئے کہ اتحاد میں طاقت ہے۔

کہانی کا سبق:
ٹیم ورک کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ جب لوگ ایک ساتھ کام کرتے ہیں، تو وہ وہ کام حاصل کر سکتے ہیں جو اکیلے ناممکن لگتے ہیں۔

کسان اور پوشیدہ خزانہ - کہانی 04

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں کیشو نام کا ایک محنتی کسان رہتا تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے جو مضبوط تو تھے لیکن بہت کاہل تھے۔ وہ اپنا وقت فضول ضائع کرتے اور اپنے والد کی کھیتوں میں مدد نہیں کرتے تھے۔ کیشو ہمیشہ ان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتا تھا۔

ایک دن، کیشو بیمار پڑ گیا اور اسے احساس ہوا کہ اس کی زندگی کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اس نے اپنے بیٹوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا، "میرے بیٹو، میں نے ہمارے کھیتوں میں ایک خزانہ چھپایا ہے۔ مٹی کھودو، اور تم اسے پا لو گے۔" بیٹے خزانے کے خیال سے بہت خوش ہوئے اور اسے ڈھونڈنے پر رضامند ہو گئے۔

کیشو کے انتقال کے بعد، بیٹوں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے بیلچے اٹھائے اور کھیت کے ایک ایک کونے کو کھودنے لگے، یہ امید کرتے ہوئے کہ انہیں سونا یا جواہرات ملیں گے۔ وہ گرم دھوپ میں انتھک محنت کرتے رہے، بار بار مٹی پلٹتے رہے۔ لیکن کئی دنوں کی سخت محنت کے بعد بھی انہیں کچھ نہیں ملا۔

مایوس ہو کر، بیٹے آرام کرنے بیٹھ گئے۔ ایک نے کہا، "والد شاید غلط تھے۔ یہاں کوئی خزانہ نہیں ہے۔" دوسرا بیٹا، تازہ ہل چلائی ہوئی زمین کو دیکھتے ہوئے، اچانک بولا، "چونکہ کھیت پہلے ہی ہل چلا ہوا ہے، کیوں نہ ہم یہاں بیج بو دیں؟"

سب نے اتفاق کیا، اور انہوں نے زرخیز مٹی میں بیج بو دیے۔ چند ہفتوں بعد، سبز کونپلیں نکلنے لگیں، اور جلد ہی انہیں زبردست فصل حاصل ہوئی۔ فصل بیچنے سے انہیں اچھی کمائی ہوئی، اور بیٹوں کو احساس ہوا کہ ان کے والد کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اصل خزانہ ان کی محنت کا پھل ہے۔

اس دن کے بعد، بیٹے دل لگا کر کھیتوں میں کام کرنے لگے، اپنے والد کی عقل مندی کو یاد کرتے ہوئے۔ انہوں نے خوشحال اور مطمئن زندگی گزاری، سب اپنے والد کے سکھائے ہوئے سبق کی بدولت۔

کہانی کا سبق:
محنت اور ثابت قدمی کامیابی کی کنجی ہیں۔ سب سے بڑے خزانے محنت اور لگن سے حاصل ہوتے ہیں۔

عقلمند الّو اور بے وقوف کوا - کہانی 05

ایک گھنے جنگل میں ایک عقلمند پرانا الو رہتا تھا جسے تمام جانور عزت دیتے تھے۔ الو بہت کم بولتا تھا، لیکن جب بولتا تو اس کی باتوں میں دانش اور رہنمائی ہوتی۔ اسی کے قریب ایک درخت پر ایک بے وقوف کوّا رہتا تھا۔ کوّا بہت مغرور تھا اور اکثر الو کا مذاق اڑاتا کہ وہ چپ رہتا ہے۔

ایک دن، جنگل کے تمام جانور ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ ایک ندی، جو پورے جنگل کو پانی فراہم کرتی تھی، سوکھ رہی تھی، اور جانور نہیں جانتے تھے کہ کیا کریں۔ کوّے نے اس صورتحال پر ہنستے ہوئے کہا، “ایک پرانا الو کیا کر سکتا ہے؟ ہمیں خود ہی کچھ کرنا چاہیے!” جانوروں نے کوّے کو نظر انداز کیا اور الو سے مشورہ مانگا۔

الو نے کچھ دیر سوچا اور کہا، “ہمیں ندی کے گہرے حصوں سے چھوٹے چینل کھودنے ہوں گے تاکہ پانی سوکھے ہوئے حصوں تک پہنچ سکے۔ اگر سب مل کر کام کریں تو ہم پانی کو بچا سکتے ہیں۔” جانوروں نے اتفاق کیا اور الو کی تجویز پر کام شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ کوّا، جو پہلے ہچکچاتا تھا، مدد کے لیے آگے آیا۔ جلد ہی، پانی پھر سے بہنے لگا، اور جنگل بچ گیا۔

یہ کامیابی دیکھ کر کوّے کو الو کا مذاق اڑانے پر شرمندگی ہوئی۔ وہ الو کے پاس آیا اور کہا، “میں نے تمہاری دانش کو کم سمجھا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ دوسروں کا مذاق اڑانا دانشمندی نہیں ہے۔” الو مسکرایا اور کہا، “غرور ہمیں اندھا کر دیتا ہے۔ اصل دانشمندی سننے اور سیکھنے میں ہے۔”

اس دن کے بعد، کوّے نے غرور کرنا چھوڑ دیا اور دوسروں سے سیکھنا شروع کر دیا۔

کہانی کا سبق:
دانش اور ٹیم ورک بڑے سے بڑے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ غرور ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، جبکہ عاجزی سیکھنے کا راستہ کھولتی ہے۔

چیونٹی اور ٹڈڈی - کہانی 06

ایک روشن گرمی کی صبح، ایک محنتی چیونٹی آنے والی سردیوں کے لیے گندم کے دانے جمع کر رہی تھی۔ وہ تھکاوٹ کے باوجود ہر دانہ اپنے گھونسلے تک پہنچاتی تھی۔ قریب ہی، ایک لاپرواہ ٹڈا دھوپ میں لیٹا ہوا اپنے وائلن پر دھنیں بجا رہا تھا اور گانے گا رہا تھا۔

"چیونٹی، تم اتنی سخت محنت کیوں کر رہی ہو؟" ٹڈے نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ "سورج چمک رہا ہے، اور زندگی آسان ہے۔ سردیوں کی فکر چھوڑ کر میرے ساتھ گاؤ۔"

چیونٹی ایک لمحے کے لیے رکی، ٹڈے کی طرف دیکھا، اور کہا، "میں ان مہینوں کے لیے تیاری کر رہی ہوں جب سردی ہوگی اور کھانا نہیں ملے گا۔ تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔"

ٹڈا زور سے ہنسا۔ "سردیاں ابھی بہت دور ہیں! اس کی فکر کرنے کے لیے بہت وقت ہے،" وہ کہہ کر دوبارہ اپنے موسیقی میں مصروف ہو گیا۔

وقت گزرتا گیا، اور چیونٹی نے اپنی محنت جاری رکھی۔ اس نے اپنے گھونسلے میں کافی کھانے کا ذخیرہ جمع کر لیا۔ دوسری طرف، ٹڈے نے اپنا وقت گرمی کی روشنی میں لطف اندوز ہونے میں گزار دیا اور چیونٹی کی باتوں کو نظر انداز کر دیا۔

جلد ہی گرمی ختم ہوئی، اور سردیاں آ گئیں۔ وہ ہری بھری گھاس، جو کبھی میڈو میں تھی، اب برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ٹڈا بھوک اور سردی سے تنگ آ گیا۔ اس نے ہر جگہ کھانے کی تلاش کی لیکن اسے کچھ نہیں ملا۔ مایوسی میں، وہ چیونٹی کے دروازے پر پہنچا۔

"پیارے دوست چیونٹی، میں بھوکا اور سردی سے بے حال ہوں۔ کیا تم کچھ کھانا دے سکتی ہو؟" ٹڈے نے التجا کی۔

چیونٹی نے دروازہ کھولا اور ہمدردی سے اسے دیکھا۔ "ٹڈے، میں نے گرمیوں میں سخت محنت کی، جبکہ تم کھیلتے رہے۔ میں نے تمہیں تیاری کرنے کے لیے کہا تھا، کیوں نہیں کی؟"

ٹڈا شرمندگی سے اپنا سر جھکا کر بولا، "میں بے وقوف تھا اور سوچا تھا کہ گرمی ہمیشہ رہے گی۔ اب مجھے سبق مل گیا ہے۔"

مہربان چیونٹی نے اس کے ساتھ کھانا بانٹ لیا، لیکن کہا، "یہ یاد رکھنا: محنت اور منصوبہ بندی بقا کے لیے ضروری ہیں۔"

اس دن کے بعد، ٹڈے نے اپنی عادت بدل لی۔ جب گرمی واپس آئی، تو اس نے چیونٹی کے ساتھ مل کر کھانا جمع کیا، اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ دوبارہ ایسی پریشانی کا شکار نہ ہو۔

کہانی کا سبق:
مستقبل کی کامیابی کے لیے تیاری اور محنت ضروری ہیں۔ حال کا لطف اٹھانا اہم ہے، لیکن مستقبل کو نظر انداز کرنا مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔

ایماندار لکڑی کاٹنے والا - کہانی 07

ایک وقت کی بات ہے کہ ایک دریا کے کنارے ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا جس کا نام رام تھا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں بیچ کر اپنی روزی کماتا تھا۔ اپنی غربت کے باوجود، رام اپنی ایمانداری اور محنت کے لیے مشہور تھا۔

ایک دن، جب رام دریا کے قریب لکڑیاں کاٹ رہا تھا، اس کا کلہاڑا اس کے ہاتھ سے پھسل کر گہرے پانی میں جا گرا۔ دریا تیز بہاؤ والا تھا، اور رام تیرنا نہیں جانتا تھا۔ پریشان ہو کر، وہ دریا کے کنارے بیٹھ گیا اور دعا کرنے لگا، "اے خدا، میری مدد کرو! میرا کلہاڑا ہی میری روزی کا ذریعہ ہے۔"

اس کی دعا سن کر، دریا کی دیوی اس کے سامنے ظاہر ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چمکتا ہوا سونے کا کلہاڑا تھا۔ دیوی نے پوچھا، "لکڑ ہارے، کیا یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟"

رام نے سر ہلا کر کہا، "نہیں، یہ میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ میرا کلہاڑا پرانا اور لوہے کا ہے۔"

دیوی مسکرائی اور دوبارہ دریا میں غوطہ لگا لیا۔ اس بار، وہ ایک چاندی کا کلہاڑا لے کر آئیں اور پوچھا، "کیا یہ تمہارا کلہاڑا ہے؟"

رام نے ایمانداری سے جواب دیا، "نہیں، یہ بھی میرا کلہاڑا نہیں ہے۔ میرا کلہاڑا لوہے کا بنا ہوا ہے۔"

دیوی رام کی ایمانداری سے متاثر ہوئیں۔ وہ دوبارہ دریا میں گئیں اور آخرکار اس کا لوہے کا کلہاڑا لے آئیں۔ "کیا یہ وہی کلہاڑا ہے؟" انہوں نے پوچھا۔

"ہاں، یہ میرا کلہاڑا ہے!" رام خوشی سے چلایا۔

دیوی نے اس کا کلہاڑا اسے دیا اور کہا، "تمہاری ایمانداری نے مجھے متاثر کیا ہے۔ انعام کے طور پر، میں تمہیں سونے اور چاندی کے کلہاڑے بھی دیتی ہوں۔" رام نے شکریہ کے ساتھ یہ تحفے قبول کیے اور اپنے گاؤں واپس چلا گیا، جہاں اس نے سب کو یہ کہانی سنائی۔

گاؤں والوں نے رام کی مثال سے ایمانداری کی اہمیت سیکھی اور اسے پہلے سے زیادہ عزت دینے لگے۔

کہانی کا سبق:
ایمانداری کا ہمیشہ انعام ملتا ہے، بعض اوقات غیر متوقع طریقوں سے۔ سچائی اعتماد اور برکتیں لاتی ہے۔

لڑکا جو بھیڑیا روتا ہے - کہانی 08

ایک پرسکون گاؤں، جو پہاڑیوں سے گھرا ہوا تھا، میں ارجن نام کا ایک لڑکا رہتا تھا۔ اسے گاؤں کی بھیڑوں کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ہر دن، وہ بھیڑوں کو قریبی چراگاہ میں لے جاتا اور انہیں بھیڑیوں سے بچاتا۔

ارجن کو اپنا کام بہت بورنگ لگتا تھا، اس نے اپنے آپ کو محظوظ کرنے کا ایک طریقہ سوچا۔ ایک دن دوپہر کو، وہ ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور زور سے چلایا، "بھیڑیا! بھیڑیا! مدد کرو، یہاں بھیڑیا ہے!"

گاؤں والوں نے اس کی آواز سنی اور اپنی لاٹھیاں اور اوزار لے کر مدد کے لیے دوڑ پڑے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو کوئی بھیڑیا نہیں تھا۔ ارجن ہنستا ہوا بولا، "یہ تو مذاق تھا!" گاؤں والے ناراض ہو کر واپس چلے گئے۔

کچھ دن بعد، ارجن نے پھر یہی حرکت کی۔ "بھیڑیا! بھیڑیا!" وہ چلایا۔ ایک بار پھر، گاؤں والے پہاڑی کی طرف دوڑے، لیکن جب وہ پہنچے تو ارجن پھر ہنس رہا تھا۔ اس بار وہ اور بھی زیادہ ناراض ہوئے۔

پھر ایک دن، واقعی ایک بھیڑیا آیا۔ ڈر کے مارے، ارجن نے زور زور سے چلایا، "بھیڑیا! بھیڑیا! براہِ کرم مدد کرو!" لیکن گاؤں والوں نے سوچا کہ وہ پھر مذاق کر رہا ہے، اور اس کی آواز کو نظر انداز کر دیا۔

بھیڑیا بھیڑوں پر حملہ کر گیا، اور ارجن اکیلے اسے روک نہ سکا۔ جب گاؤں والوں کو حقیقت کا پتہ چلا، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ کئی بھیڑیں کھو گئی تھیں۔

ارجن کو بہت شرمندگی ہوئی اور اس نے گاؤں والوں سے معافی مانگی۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ اس دن کے بعد، وہ ایک قابلِ اعتماد اور ذمہ دار چرواہا بن گیا۔

کہانی کا سبق:
جھوٹ وقتی تفریح تو دے سکتا ہے، لیکن یہ اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولیں، کیونکہ ایک بار ٹوٹا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

لومڑی اور انگور - کہانی 09

ایک دن دوپہر کو، ایک چالاک لومڑی جنگل میں ٹہل رہی تھی جب وہ ایک سرسبز انگور کے باغ کے قریب پہنچی۔ بیلوں پر رسیلے انگور لٹک رہے تھے جو سورج کی روشنی میں چمک رہے تھے۔ وہ انگور اتنے خوشنما تھے کہ جیسے وہ لومڑی کو اپنے پاس بلاتے ہوں۔ صرف انہیں دیکھ کر ہی اس کے منہ میں پانی آ گیا۔

لومڑی نے انگوروں کو چکھنے کے لیے فوراً چھلانگ لگائی، لیکن وہ انگور بہت اونچے تھے۔ ہمت نہ ہارتے ہوئے، اس نے کچھ قدم پیچھے ہٹ کر اپنی تمام طاقت جمع کی اور ایک دوڑتی ہوئی چھلانگ لگائی، لیکن پھر بھی وہ انگور تک نہ پہنچ سکی۔

اس نے پھر کوشش کی، اس بار اور زیادہ اونچا جست لگا کر اپنی پنجوں کو بڑھایا، لیکن انگور اس کی پہنچ سے باہر ہی رہے۔ اس کے پٹھے تھک گئے اور مایوسی اس پر چھا گئی۔ اسے یہ احساس ہو گیا کہ چاہے وہ جتنا بھی کوشش کرے، وہ انگور کبھی نہیں حاصل کر سکے گا۔

تھکا ہارا، لومڑی زمین پر بیٹھ گئی اور آہ بھر کر کہا، “کتنی بیوقوف بات تھی! میں ان انگوروں تک نہیں پہنچ سکا، جتنی بھی محنت کی، وہ بےکار ہو گئی۔”

جیسے ہی وہ وہاں سے جانے والی تھی، اس نے دوبارہ انگوروں کو ایک آخری بار دیکھا۔ لیکن اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے کے بجائے، اس نے سر ہلایا اور خود سے کہا، “یہ انگور تو شاید کھٹے ہوں گے۔ ان کے لیے اتنی محنت کرنا بےکار تھا۔ میں تو ان کا مزہ لینا بھی نہیں چاہتا تھا۔”

جب وہ واپس جا رہی تھی، تو اس نے خود کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس نے کبھی انگوروں کو حاصل کرنے کی خواہش ہی نہیں کی تھی۔ لیکن دل میں، وہ جانتی تھی کہ وہ صرف اپنی ناکامی کا بہانہ بنا رہی تھی۔ وہ ناکام ہو چکی تھی، اور اس کے بجائے کہ وہ اپنی ناکامی کو تسلیم کرتی، اس نے اسے جھوٹ کے ساتھ چھپانے کی کوشش کی۔

لومڑی کی یہ حرکت ہمیں انسانوں کی ایک عام عادت سے آشنا کرتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کو حاصل نہیں کر پاتے تو ہم اسے غیر اہم کہنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنی عزت نفس اور انا کو بچا سکیں۔ لومڑی کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بعض اوقات ہمارا غرور اور تکبر ہمیں ہماری کمیوں کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے۔

کہانی کا سبق:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ جب ہم کسی چیز کو حاصل نہیں کر پاتے، تو اس کو کم اہم سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ تاہم، یہ عموماً ہمارے غرور اور انا کی ایک حفاظتی تدبیر ہوتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ہار مان کر بہانے بنائیں، ہمیں اپنی ناکامیوں کا سامنا کرنا چاہیے اور سیکھنا چاہیے۔ ہر ناکامی ایک نیا موقع ہے جس سے ہم بہتر بن سکتے ہیں اور سیکھ سکتے ہیں-

کچھوا اور خرگوش - کہانی 10

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تیز خرگوش تھا جو ہمیشہ اپنی رفتار پر فخر کرتا تھا۔ وہ جنگل کے تمام جانوروں کو یہ بتانے میں مصروف رہتا تھا، "میں یہاں کا سب سے تیز جانور ہوں۔ کوئی بھی مجھے دوڑ میں شکست نہیں دے سکتا!"

دوسرے جانور اس کی مسلسل بڑائی سے تنگ آ چکے تھے، تو ایک دن، ایک آہستہ اور مستحکم کچھی نے خرگوش کو دوڑنے کا چیلنج دیا۔ خرگوش یہ سن کر ہنسا اور بولا، "تم؟ مجھ سے دوڑنے کا خیال؟ تم بہت سست ہو، تم کبھی بھی نہیں جیت پاؤ گے!"

کچھی، بے فکر، آرام سے بولا، "چلو دیکھتے ہیں کون پہلے پہنچتا ہے۔" اگلے دن دوڑ کا فیصلہ کیا گیا۔

دوڑ کے دن، خرگوش فوراً تیز دوڑنے لگا اور کچھی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ اس بات پر اتنا پُر اعتماد تھا کہ وہ جیتنے والا ہے، کہ اس نے دوڑ کے درمیان میں ایک نیند لینے کا فیصلہ کیا۔ "میرے پاس کافی وقت ہے،" اس نے سوچا۔ "کچھی تو اتنی سست ہے، میں سو سکتا ہوں اور پھر بھی جیت جاوں گا۔"

اسی دوران، کچھی آہستہ آہستہ اور مستحکم قدموں سے دوڑتا رہا، بغیر رک کے۔ آہستہ آہستہ وہ سوئے ہوئے خرگوش کو پیچھے چھوڑتا گیا۔

کافی گھنٹوں بعد، خرگوش جاگ اٹھا، کھینچتے ہوئے اپنے آپ کو سیدھا کیا اور دیکھا کہ کچھی تقریباً لائن تک پہنچ چکا ہے۔ وہ پریشانی میں دوڑتے ہوئے لائن تک پہنچا، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ کچھی نے پہلے ہی لائن کراس کر لی تھی اور دوڑ جیت چکا تھا۔

تمام جانوروں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں، اور خرگوش شرمندہ ہو کر اپنا سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔ اسے احساس ہوا کہ ضرورت سے زیادہ اعتماد اور سستی نے اسے فتح سے محروم کر دیا۔

کہانی کا سبق:
آہستہ اور مستحکم ہی دوڑ جیتتے ہیں۔ تسلسل اور محنت کا وقت آنا چاہیے، اور یہ زیادہ ضروری ہیں بجائے اس کے کہ ہم ضرورت سے زیادہ اعتماد کریں یا شارٹ کٹ اختیار کریں-

شیر اور چوہا - کہانی 11

ایک دن، جنگل میں ایک طاقتور شیر گہری نیند سو رہا تھا۔ ایک چھوٹا سا چوہا ادھر ادھر دوڑتے ہوئے شیر کی ناک پر چل گیا۔ شیر اچانک ایک زوردار دہاڑ کے ساتھ جاگ گیا اور فوراً اپنے پنجے سے چوہے کو دبا لیا۔

ڈر کے مارے چوہا بولا، "براہ کرم مجھے جانے دو، اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تمہاری مدد کروں گا!" شیر چھوٹے چوہے کی ہمت پر ہنسا اور کہا، "تم میری مدد نہیں کر سکتے، لیکن پھر بھی تمہیں جانے دیتا ہوں۔"

کچھ دن بعد، شیر ایک شکاری کے جال میں پھنس گیا۔ وہ دہاڑ رہا تھا اور جدوجہد کر رہا تھا، لیکن جتنا وہ لڑتا، اتنا ہی جال تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ شیر کی دہاڑ سن کر چوہا دوڑتے ہوئے وہاں پہنچا۔

چوہا نے وقت ضائع کیے بغیر جال کی رسوں کو اپنے تیز دانتوں سے چبانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ، چوہا نے رسوں کو کاٹ کر شیر کو آزاد کر دیا۔

شیر نے آزاد ہو کر چوہے کا شکریہ ادا کیا اور کہا، "میں تمہیں کم تر سمجھ رہا تھا، لیکن تم نے میری مدد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ تم بھی بہت اہم ہو۔"

چوہا مسکرا کر بولا، "دیکھا، کبھی کبھی چھوٹے دوست بھی بڑی مدد کر سکتے ہیں جب وقت آتا ہے۔"

کہانی کا سبق:
کسی بھی نیکی کا عمل کبھی بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔ چھوٹے سے چھوٹے جانور بھی جب ضرورت پڑے، بڑی مدد کر سکتے ہیں۔

لالچی کتا - کہانی 12

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کتیا بہت لالچی تھی۔ ایک دن، وہ گلیوں میں چلتے ہوئے ایک بڑا، رسیلا ہڈی پا لیتی ہے۔ وہ اتنی خوش اور پرجوش ہو گئی کہ فوراً وہ ہڈی اٹھا کر گھر دوڑنے لگی۔

گھر جاتے ہوئے، کتیا کو ایک پل کے نیچے ایک ندی کے پار سے گزرنا پڑا۔ جب اس نے نیچے پانی میں جھانکا، تو اس نے اپنی ہی عکس دیکھی جس کے منہ میں وہی ہڈی تھی۔ اس نے سوچا، "کتنا بڑا اور رسیلا ہڈی ہے اس کتے کے پاس! کاش میرے پاس بھی وہ ہڈی ہو۔"

لالچ میں اندھی ہو کر، کتیا نے فیصلہ کیا کہ وہ دونوں ہڈیاں چاہتی ہے۔ اس نے اپنا منہ کھولا اور اپنی ہڈی پانی میں پھینک دی، تاکہ وہ دوسری ہڈی پکڑ سکے۔ لیکن جیسے ہی اس نے اپنی ہڈی پھینکی، عکس غائب ہو گیا، اور اس نے سمجھا کہ وہ واحد ہڈی جو تھی، وہ بھی گم ہو گئی ہے۔

کتیا دیر تک انتظار کرتی رہی، لیکن کوئی اور ہڈی نہ آئی۔ اس نے جو کچھ تھا، وہ بھی کھو دیا تھا۔

کہانی کا سبق:
لالچ انسان کو اکثر نقصان کی طرف لے جاتی ہے۔ جو کچھ تمہارے پاس ہے، اسی پر اکتفا کرو اور لالچ سے اپنے فیصلے مت بگاڑو-

عقلمند کسان اور تین بیٹے - کہانی 13

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دانا کسان تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس کے بیٹے محنتی تھے، مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر اکثر آپس میں لڑتے رہتے تھے، جس سے کسان کو تشویش تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے اتحاد، محنت اور صبر کی اہمیت سیکھیں۔

ایک دن کسان نے فیصلہ کیا کہ وہ انہیں ایک سبق دے گا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا، "میرے پاس تمہارے لیے ایک اہم کام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے ہر ایک ایک گٹھری لکڑیوں کی لے کر ان کو توڑ دو۔"

پہلا بیٹا، جو جلدی کام مکمل کرنا چاہتا تھا، فوراً لکڑیوں کی گٹھری کو اٹھا کر ایک ایک کر کے توڑنے کی کوشش کرنے لگا، مگر وہ جتنی بھی کوشش کرتا، وہ گٹھری نہیں توڑ سکا۔

دوسرا بیٹا نے بھی وہی کوشش کی، مگر اسے بھی وہی مشکل پیش آئی۔ جب لکڑیاں ایک ساتھ بندھی ہوتی ہیں تو وہ بہت مضبوط ہو جاتی ہیں اور انہیں توڑنا مشکل ہوتا ہے۔

آخرکار تیسرا بیٹا آیا اور گٹھری کو آرام سے کھول کر لکڑیاں الگ الگ کر دیں۔ ایک ایک کر کے اس نے ہر لکڑی کو بہت آسانی سے توڑ دیا۔

کسان مسکرا کر بولا، "کیا تم نے دیکھا؟ جب تم سب مل کر کام کرتے ہو تو تم ایک مضبوط گٹھری کی طرح ہو، اور تم کچھ بھی حاصل کر سکتے ہو۔ لیکن اگر تم الگ الگ ہو جاؤ گے تو ہر لکڑی کی طرح تمہیں توڑنا آسان ہو جائے گا۔"

بیٹوں نے آخرکار سبق سیکھ لیا۔ اس دن کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے اور ان کا خاندان خوشحال ہو گیا۔

کہانی کا سبق:
اتحاد میں طاقت ہوتی ہے۔ جب لوگ ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو وہ بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔

سنہری انڈہ - کہانی 14

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب کسان تھا جس کے پاس ایک ہنس تھی جو روزانہ ایک سنہری انڈہ دیتی تھی۔ کسان اس پر بہت حیران ہوا اور اس نے ان سنہری انڈوں کو بیچنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے وہ جلد ہی امیر ہو گیا۔ وہ آرام دہ زندگی گزارنے لگا اور دن بہ دن زیادہ دولت مند ہو گیا۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کسان میں لالچ آ گیا۔ اس نے سوچا، "اگر ہنس ایک سنہری انڈہ دیتی ہے تو وہ شاید ایک ہی بار میں کئی انڈے دے سکتی ہو گی۔ میں اور بھی زیادہ امیر ہو سکتا ہوں!"

لالچ میں آ کر کسان نے فیصلہ کیا کہ وہ ہنس کو مار ڈالے گا اور اس کا پیٹ کھول کر تمام سنہری انڈے نکالے گا۔ اس نے ایسا کیا، مگر جب اس نے ہنس کا پیٹ کھولا تو اندر کچھ بھی نہیں تھا۔

ہنس مر چکی تھی، اور اس کے ساتھ ہی اس کی دولت کا سورس بھی ختم ہو گیا تھا۔ کسان نے اپنی دولت کو لالچ کی وجہ سے تباہ کر دیا تھا۔

کہانی کا سبق:
لالچ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کبھی کبھی جو چیزیں ہمارے پاس ہوتی ہیں، وہ اتنی قیمتی ہوتی ہیں کہ ہمیں ان سے خوش رہنا چاہیے۔

چیونٹی اور کبوتر - کہانی 15

ایک گرم موسم کے دن، ایک چیونٹی ایک دریا کے قریب چل رہی تھی۔ گرمی کی وجہ سے پیاس سے تڑپتے ہوئے، چیونٹی پھسل کر پانی میں گر گئی۔ وہ پانی میں تیرنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن دریا کی لہریں بہت تیز تھیں۔

ایک کبوتر جو درخت پر بیٹھا تھا، نے چیونٹی کو مشکل میں دیکھا۔ فوراً، کبوتر نے درخت کی ایک پتی کو توڑا اور پانی میں چیونٹی کے قریب پھینک دیا۔ چیونٹی اس پتی پر چڑھ کر کنارے تک پہنچ گئی اور اس کی جان بچ گئی۔

چیونٹی نے کبوتر کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس کے احسان کا بدلہ دے گی۔

کچھ دن بعد، چیونٹی دریا کے کنارے چل رہی تھی جب اس نے ایک شکاری کو کبوتر کو جال میں پھانسنے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا۔ چیونٹی فوراً شکاری کے پاؤں کو کاٹ کر اس کو تکلیف دی، جس سے وہ جال گرا اور کبوتر بچ کر اُڑ گیا۔

کبوتر نے نیچے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا، "تمہاری مہربانی مجھے سب سے غیر متوقع طریقے سے واپس ملی۔"

کہانی کا سبق:
مہربانی ہمیشہ واپس آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اعمال بھی بڑی تبدیلیاں لا سکتے ہیں

تین درخت - کہانی 16

ایک زمانے میں، ایک خاموش وادی میں تین درخت ایک ساتھ اُگ رہے تھے۔ وہ سب اپنے آپ کو بلند اور مضبوط دیکھنے کے لیے پرجوش تھے، لیکن ہر درخت کا خواب مختلف تھا کہ وہ بڑے ہو کر کیا بنے گا۔

پہلا درخت، جو سب سے بلند تھا، یہ خواب دیکھتا تھا کہ وہ ایک عظیم اور شاندار کشتی بنے گا۔ "میں سمندروں میں سفر کروں گا، بادشاہوں اور ملکہوں کو لے کر دور دراز ملکوں کی سیر کروں گا، اور ہر جگہ میری عظمت کی تعریف کی جائے گی،" اس نے سوچا۔ اس نے خود کو سونے اور جواہرات سے سجا ہوا تصور کیا، جسے سب تعریف کریں گے۔

دوسرا درخت، جو تھوڑا چھوٹا تھا لیکن مضبوط تھا، چاہتا تھا کہ وہ ایک خوبصورت اور شاندار گھر بنے۔ "میں خوبصورتی سے کندہ کیا جاؤں گا، لوگ میرے اندر رہیں گے، اور یہاں محبت اور ہنسی کی آوازیں گونجیں گی،" اس نے سوچا۔

تیسرا درخت، جو سب سے چھوٹا تھا، بس یہ چاہتا تھا کہ وہ جتنا ہو سکے بلند ہو، تاکہ وادی میں سب سے بلند درخت بن سکے۔ "میں وادی کا سب سے بلند درخت بنوں گا تاکہ میں سب کچھ اوپر سے دیکھ سکوں۔ میں طاقت اور خوبصورتی کا نشان بنوں گا،" اس نے سوچا۔

سال گزرے، اور درخت مضبوط اور بلند ہو گئے۔ لیکن ایک دن، ان تینوں درختوں کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا۔ پہلا درخت، جو ایک عظیم کشتی بننے کا خواب دیکھتا تھا، کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک سادہ سا کشتی بنایا گیا۔ وہ مایوس تھا، لیکن جلد ہی اس نے سمجھا کہ جو کشتی وہ بنا تھا، وہ ایک غریب مچھیارے اور اس کے خاندان کو دریا پار کرنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ وہ سمندروں میں بادشاہوں کو نہیں لے جا سکا، مگر وہ ابھی بھی ایک مقصد کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔

دوسرا درخت، جو ایک عظیم گھر بننے کا خواہش مند تھا، کو کاٹ کر ایک چھوٹے سے چارپائی کی شکل میں بدل دیا گیا۔ یہ وہ محل نہیں تھا جو اس نے سوچا تھا، لیکن ایک رات، ایک بچہ اس چارپائی میں رکھا گیا، اور درخت نے سمجھا کہ وہ ایک خوبصورت کہانی کا حصہ بن چکا ہے، ایک کہانی جو نسلوں تک یاد رکھی جائے گی۔

تیسرا درخت، جو سب سے بلند درخت بننے کا خواب دیکھتا تھا، کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ایک سادہ صلیب بنایا گیا۔ شروع میں یہ دل توڑنے والا تھا، لیکن جلد ہی درخت نے سمجھا کہ وہ کچھ بہت بڑا کام کرنے میں حصہ لے رہا تھا۔ وہ صلیب ایک اہم مشن کے لیے استعمال ہوئی جس نے دنیا کو بدل دیا۔

یہ تین درخت، اگرچہ وہ وہ نہیں بن سکے جو انہوں نے خواب دیکھا تھا، لیکن وہ سب اپنے طریقے سے کچھ بہت معنی خیز کا حصہ بن گئے۔

کہانی کا سبق:
کبھی کبھی، ہمارے خواب ویسے نہیں ہوتے جیسے ہم نے ان کا تصور کیا تھا، لیکن آخرکار ہم ایسی عظیم مقصد کی تکمیل کر سکتے ہیں جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ ہمارے لیے ایک بڑا منصوبہ ہے۔

بہادر چھوٹا بیج - کہانی 17

ایک زمانے میں، ایک پُرامن باغ میں ایک چھوٹا سا بیج زمین میں پڑا تھا۔ یہ بیج چھوٹا تھا، لیکن اس کا خواب تھا کہ وہ ایک دن ایک بلند اور مضبوط درخت بنے گا۔ بیج ہوا کی سرسراہٹ، پرندوں کے گانے اور بارش کی بوندوں کو سنتا تھا۔ وہ پر امید اور عزم سے بھرا ہوا تھا کہ وہ بڑھنے کی کوشش کرے گا۔

ایک دن، ایک شدید طوفان آیا۔ ہوا تیز چل رہی تھی، بارش تیز ہو گئی تھی، اور آسمان سے گرج رہی تھی۔ چھوٹا بیج خوفزدہ تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر وہ بڑھنا چاہتا ہے تو اسے طوفان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تیز ہوا اور بارش کے باوجود، بیج زمین میں جڑ پکڑ کر قائم رہا۔

جب طوفان گزر گیا، سورج نکلا اور آسمان صاف ہو گیا۔ چھوٹا بیج، جو ابھی بھی چھوٹا تھا، زمین سے باہر نکلا اور سورج کی حرارت کی طرف بڑھنے لگا۔ دن ہفتوں میں تبدیل ہوگئے، اور ہفتے مہینوں میں۔ بیج ایک چھوٹے پودے میں تبدیل ہو گیا، جو ہر دن کے ساتھ اونچا اور مضبوط ہو رہا تھا۔

سال گزرے اور وہ چھوٹا پودا ایک عظیم درخت بن گیا۔ اس کی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہو چکی تھیں اور اس کی جڑیں زمین میں گہری جا رہی تھیں۔ وہ درخت عزم اور حوصلے کی علامت بن چکا تھا، جو ہر طوفان اور چیلنج کا مقابلہ کر کے کھڑا تھا۔

ایک دن، درخت نے ارد گرد دیکھا اور دیگر پودوں کو بڑھتے ہوئے دیکھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس طرح کے چیلنجوں کا سامنا نہیں کر رہا تھا۔ اس نے سمجھا کہ جو مشکلات اس نے برداشت کی تھیں، وہی اسے مضبوط بناتی تھیں۔ وہ اپنے بننے پر فخر محسوس کر رہا تھا اور جانتا تھا کہ اسے عظیم بننے کے لیے طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کہانی کا سبق:
ترقی اور کامیابی اکثر مشکلات کو برداشت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ حوصلے اور صبر کے ساتھ چیلنجوں کا سامنا کرنا انسان کو طاقتور اور کامیاب بناتا ہے۔

عقلمند پرانا الّو - کہانی 18

گہرے جنگل میں ایک دانا پرانا ہاتھی رہتا تھا جس نے بہت سیزن دیکھے تھے۔ ہاتھی کو جنگل کے تمام جانوروں کی طرف سے اس کی حکمت کی وجہ سے عزت دی جاتی تھی۔ ایک دن، ایک چھوٹا خرگوش ہاتھی کے پاس آیا اور اس کے چہرے پر پریشانی کا اظہار تھا۔

"دانا ہاتھی،" خرگوش نے کہا، "میں بہت الجھن میں ہوں اور خود کو گم محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنی زندگی کے ساتھ کیا کروں۔ میرے سامنے بہت سارے راستے ہیں، اور مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون سا راستہ چنوں۔"

ہاتھی نے خرگوش کو مہربانی سے دیکھا اور کہا، "آؤ، میرے ساتھ بیٹھو، اور میں تمہیں ایک کہانی سناؤں گا۔" خرگوش بیٹھ گیا، اور ہاتھی نے اپنی کہانی شروع کی۔

"ایک وقت کی بات ہے، ایک نوجوان ہرن جنگل کے کنارے پر کھڑا تھا اور کھلے میدان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں مختلف سمتوں میں جانے والے کئی راستے تھے، اور ہرن ان انتخابوں سے گھبرا گیا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد، ہرن نے ایک راستہ چن لیا اور اس پر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں اسے کئی مشکلات کا سامنا ہوا، لیکن اس نے ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ ہر قدم کے ساتھ، ہرن زیادہ مضبوط، حکمت والا اور پراعتماد ہو گیا۔"

ہاتھی نے رک کر خرگوش کو دیکھا اور کہا، "ہرن کو نہیں معلوم تھا کہ یہ راستہ کہاں لے جائے گا، لیکن اس نے اسے منتخب کیا اور چلنا شروع کیا۔ آخرکار، ہرن نے اپنی منزل پائی، اس لیے نہیں کہ اس نے کامل راستہ چنا، بلکہ اس لیے کہ وہ پہلا قدم اٹھانے کے لیے بہادر تھا۔"

خرگوش خاموشی سے کچھ دیر بیٹھا رہا اور ہاتھی کی باتوں پر غور کیا۔ آخرکار وہ مسکرا کر بولا، "شکریہ، دانا ہاتھی۔ اب مجھے سمجھ آ گیا ہے۔ یہ راستہ نہیں ہے جو اہمیت رکھتا، بلکہ پہلا قدم اٹھانے کی ہمت ہے۔"

ہاتھی نے سر ہلایا اور کہا، "یاد رکھو، چھوٹے دوست، ہر سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔ خوف کو اپنے راستے میں رکاوٹ نہ بننے دو۔"

کہانی کا سبق:
یہ ہمیشہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ بہترین راستہ تلاش کریں، بلکہ پہلا قدم اٹھانے کی ہمت ہونا ضروری ہے، چاہے منزل ابھی تک واضح نہ ہو۔

ایماندار لکڑی کاٹنے والا - کہانی 19

ایک زمانے میں، ایک غریب لکڑہارا ایک جنگل کے قریب رہتا تھا۔ وہ اپنی ایمانداری اور محنت کے لیے مشہور تھا۔ ہر روز وہ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹتا اور انہیں بیچ کر اپنے خاندان کی پرورش کرتا تھا۔ ایک دن، جب وہ دریا کے کنارے ایک درخت کاٹ رہا تھا، اس کا آری ہاتھ سے پھسل کر گہرے پانی میں گر گیا۔

لکڑہارا بہت پریشان ہوا۔ اس کا آری اس کی واحد کمائی کا ذریعہ تھا اور اب وہ کھو چکا تھا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا مایوس ہو گیا۔ اچانک، ایک جادوئی پری اس کے سامنے آئی۔ "تم اتنے غمگین کیوں ہو، لکڑہارو؟" پری نے پوچھا۔

لکڑہارا نے اپنی پریشانی اور آری کے کھونے کا قصہ سنایا۔ پری نے اس کی مشکل سمجھی اور اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دریا میں غوطہ لگائی اور ایک سنہری آری لے آئی۔ "کیا یہ تمہاری آری ہے؟" اس نے پوچھا۔

لکڑہارا نے سر ہلا کر کہا، "نہیں، یہ میری نہیں ہے۔ میری آری معمولی تھی۔"

پری مسکرا کر دوبارہ دریا میں غوطہ لگائی اور ایک چاندی کی آری لے آئی۔ "کیا یہ تمہاری آری ہے؟" اس نے پھر پوچھا۔

"نہیں،" لکڑہارا نے کہا، "میری آری معمولی لوہے کی تھی۔"

پری نے مسکرا کر کہا، "تمہاری ایمانداری نے مجھے متاثر کیا ہے۔" پھر وہ آخری بار غوطہ لگائی اور لکڑہارا کی لوہے کی آری لے آئی۔ "کیا یہ تمہاری ہے؟" اس نے پوچھا۔

"ہاں! یہی میری ہے!" لکڑہارا خوش ہو کر بولا۔

پری نے لکڑہارا کی ایمانداری کو سراہتے ہوئے کہا، "تمہیں تمہاری ایمانداری کے بدلے میں سنہری اور چاندی کی آری دے رہی ہوں۔" پھر وہ غائب ہو گئی۔

لکڑہارا اپنے گھر واپس آیا اور پری کی مہربانی کے لیے شکر گزار تھا۔ اس دن کے بعد، وہ خوشحال زندگی گزارتا رہا، نہ صرف آریوں کی وجہ سے بلکہ اپنی ایمانداری اور قیمتی اقدار کی بدولت۔

کہانی کا سبق:
ایمانداری ہمیشہ انعام پاتی ہے۔ مشکل حالات میں بھی سچ بولنا بڑا انعام لاتا ہے۔

علم کا تحفہ - کہانی 20

پہاڑیوں میں بسا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں ایک لڑکا ارمان رہتا تھا۔ ارمان ہر چیز کے بارے میں جاننے کے لیے بہت بے چین تھا۔ وہ اکثر ستاروں، دریاؤں اور موسموں کے بدلنے کے بارے میں سوالات کرتا۔ لیکن اس کے گھر والے غریب تھے اور اسے اسکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔

ایک دن، ایک بوڑھے شخص، حکیم، نے گاؤں کا دورہ کیا۔ حکیم کو علاقے کا سب سے دانشمند شخص سمجھا جاتا تھا اور وہ اکثر اپنی علم کی باتیں لوگوں کو سنانے کے لیے سفر کرتا تھا۔

ارمان حکیم کی دنیا کی کہانیوں، تہذیبوں کی تاریخ اور قدرت کے رازوں سے بہت متاثر ہوا۔ حکیم نے لڑکے کے شوق کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ اسے تعلیم دے گا۔ حکیم نے کہا، "علم سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اگر تمہارے پاس یہ ہو تو کوئی اسے تم سے چھین نہیں سکتا۔"

اسی دن سے، حکیم ہر شام ایک بڑے درخت کے نیچے ارمان کو پڑھانے لگا۔ ارمان نے پڑھنا، لکھنا، اور مسائل حل کرنا سیکھا۔ حکیم نے اسے ایمانداری، مہربانی، اور محنت کی اہمیت بھی سکھائی۔ وقت کے ساتھ، ارمان سمجھدار ہو گیا اور گاؤں کے لوگوں کی مدد کرنے لگا۔

سال گزر گئے، اور ارمان ایک قابل احترام عالم بن گیا۔ دور دراز کے لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے آتے۔ ایک دن، ایک امیر تاجر ارمان کے پاس آیا اور اسے سونے کے سکوں سے بھرا ایک صندوق پیش کیا۔ بدلے میں اس نے ارمان کا علم خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ ارمان مسکرایا اور کہا، "علم بیچا نہیں جا سکتا۔ یہ بانٹنے کے لیے ہے، اور جتنا بانٹو گے، یہ اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔"

تاجر ارمان کی حکمت سے متاثر ہوا اور واپس جا کر اس کی سخاوت اور ذہانت کی کہانیاں پھیلانے لگا۔ ارمان نے گاؤں کے بچوں کو مفت تعلیم دینا جاری رکھا، بالکل اسی طرح جیسے حکیم نے اسے سکھایا تھا۔

کہانی کا سبق:
علم سب سے بڑا خزانہ ہے۔ یہ بانٹنے سے بڑھتا ہے اور نہ صرف آپ کی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی بدل سکتا ہے۔

خالی جار اور چٹانیں - کہانی 21


ایک فلسفے کے پروفیسر نے اپنی کلاس کے سامنے ایک بڑا خالی مرتبان رکھا۔ بغیر کچھ کہے، اس نے اسے بڑے پتھروں سے بھر دیا۔ پھر اس نے طلباء سے پوچھا، "کیا یہ مرتبان بھرا ہوا ہے؟"

طلباء نے اتفاق کیا کہ یہ بھرا ہوا ہے۔

پروفیسر نے پھر کچھ کنکریاں اٹھائیں اور انہیں مرتبان میں ڈال دیا۔ مرتبان کو ہلکے سے ہلایا، اور کنکریاں پتھروں کے درمیان کی جگہوں میں چلی گئیں۔ "کیا یہ مرتبان اب بھرا ہوا ہے؟"

طلباء مسکرا کر بولے، "جی ہاں۔"

اس کے بعد، پروفیسر نے ریت مرتبان میں ڈال دی، جو باقی خالی جگہوں کو بھر گئی۔ اس نے دوبارہ پوچھا، "کیا یہ مرتبان اب بھرا ہوا ہے؟"

طلباء ہنسے اور جواب دیا، "جی ہاں!"

آخر میں، پروفیسر نے ایک کپ پانی اٹھایا اور مرتبان میں ڈال دیا، جو سب سے چھوٹی جگہوں کو بھی بھر گیا۔

پروفیسر نے کہا، "یہ مرتبان تمہاری زندگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ بڑے پتھر وہ سب سے اہم چیزیں ہیں—تمہارا خاندان، صحت، اور خواب۔ کنکریاں وہ چیزیں ہیں جو اہم ہیں مگر کم اہم، جیسے تمہاری نوکری یا گاڑی۔ ریت اور پانی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ اگر تم مرتبان کو پہلے ریت یا پانی سے بھرو گے، تو پتھروں کے لیے جگہ نہیں بچے گی۔ ہمیشہ ان چیزوں کو ترجیح دو جو واقعی اہم ہیں۔"

کہانی کا سبق:
زندگی میں سب سے اہم چیزوں کو پہلے ترجیح دو۔ باقی چیزیں اپنی جگہ بنا لیں گی۔

تتلی کی جدوجہد - کہانی 22

ایک لڑکے نے ایک تتلی کو اپنے پیوپے سے نکلنے کی جدوجہد کرتے دیکھا۔ اسے تتلی پر ترس آیا اور اس نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نرمی سے پیوپے کو کاٹ کر تتلی کو آزاد کر دیا۔

لیکن تتلی کا جسم سوجا ہوا اور اس کے پر چھوٹے اور کمزور تھے۔ لڑکے نے انتظار کیا، امید کی کہ تتلی مضبوط ہو کر اڑے گی، لیکن وہ کبھی نہیں اڑی۔

لڑکا یہ نہیں جانتا تھا کہ پیوپے سے نکلنے کی جدوجہد تتلی کی نشوونما کے لیے ضروری تھی۔ یہ جدوجہد تتلی کے جسم سے مائع کو اس کے پروں میں دھکیلتی ہے، جس سے پر مضبوط ہو جاتے ہیں۔ جدوجہد کو ختم کر کے، لڑکے نے لاشعوری طور پر تتلی کو نقصان پہنچایا۔

کہانی کا سبق:
جدوجہد ترقی کا حصہ ہے۔ یہ ہمیں مضبوط بناتی ہے اور زندگی کے چیلنجز کے لیے تیار کرتی ہے۔

نوجوان باغبان کا صبر - کہانی 23

ایک چھوٹے سے گاؤں میں، روہن نام کا ایک لڑکا رہتا تھا جسے پودے بہت پسند تھے۔ اس کا خواب تھا کہ اس کے گاؤں کا سب سے خوبصورت باغ ہو۔ ایک دن، ایک بوڑھے کسان نے اسے بیجوں کا ایک تھیلا تحفے میں دیا اور کہا، "یہ بیج مضبوط اور شاندار درختوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں، لیکن تمہیں صبر سے انہیں روزانہ سنوارنا ہوگا۔"

روہن نے جوش کے ساتھ بیج اپنے باغیچے میں لگا دیے۔ پہلے کچھ دنوں تک، اس نے انہیں پانی دیا اور بے صبری سے انتظار کیا، یہ سوچتے ہوئے کہ درخت فوراً اُگ آئیں گے۔ لیکن دن ہفتوں میں بدل گئے اور کوئی نشان نہیں دکھا۔ مایوس ہو کر، روہن نے بیجوں کی دیکھ بھال چھوڑ دی۔

ایک دن، بوڑھا کسان اس کے باغیچے آیا اور نظرانداز شدہ بیج دیکھے۔ اس نے روہن سے کہا، "قدرت ہمیں صبر سکھاتی ہے۔ ترقی آہستہ لیکن مسلسل ہوتی ہے۔ بیجوں کے پاس واپس جاؤ، انہیں روزانہ پانی دو اور عمل پر بھروسہ کرو۔"

نہ چاہتے ہوئے بھی، روہن نے دوبارہ بیجوں کو پانی دینا، جڑی بوٹیاں نکالنا، اور مٹی کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ ہفتے گزرے اور ایک دن، مٹی سے ننھے پودے نکلے۔ روہن بہت خوش ہوا۔ وقت کے ساتھ، یہ ننھے پودے چھوٹے درخت بن گئے اور مسلسل دیکھ بھال سے خوبصورت درختوں میں بدل گئے جن پر پھل اور پھول لگے۔

کئی سال بعد، روہن کا باغ گاؤں کا فخر بن گیا، اور دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے۔ روہن نے یہ سیکھا کہ بڑی چیزیں وقت، محنت اور صبر مانگتی ہیں۔

کہانی کا سبق:
صبر اور مسلسل محنت بڑے انعامات لاتی ہے۔ عمل پر بھروسہ رکھیں اور جلدی ہار نہ مانیں۔

چالاک کوا اور جگ - کہانی 24

ایک گرم گرمی کے دن، ایک پیاسا کوا بنجر زمین پر پانی کی تلاش میں اڑتا رہا۔ گھنٹوں کی تلاش کے بعد، کوا نے آخر کار ایک جگ ایک چھوٹے کمرے کے پاس دیکھا۔ خوش ہو کر، کوا جگ کے پاس اترا اور اندر جھانکا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ جگ آدھا بھرا ہوا تھا اور پانی بہت نیچے تھا، جس تک کوا نہیں پہنچ سکتا تھا۔

کوا وہاں سے اڑنے ہی والا تھا کہ اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے دیکھا کہ آس پاس چھوٹے کنکر بکھرے ہوئے ہیں۔ اپنی چونچ سے، کوا کنکر اٹھانے لگا اور ایک ایک کر کے انہیں جگ میں ڈالنے لگا۔ ہر کنکر کے ساتھ پانی کی سطح اوپر اٹھتی گئی۔ آخر کار، پانی جگ کے کنارے تک پہنچ گیا۔ کوا جی بھر کر پانی پیا اور تازہ دم ہو کر اڑ گیا۔

کوا کی ذہانت اور مستقل مزاجی نے اس کی جان اس جھلسا دینے والے دن بچائی۔

کہانی کا سبق:
جہاں چاہ وہاں راہ۔ ذہانت اور عزم مشکل ترین مسائل کو بھی حل کر سکتے ہیں۔

لڑکا اور اسٹار فش - کہانی 25

ایک صبح، ایک لڑکا ساحل سمندر پر چہل قدمی کر رہا تھا جہاں ہزاروں ستارے مچھلیاں کنارے پر آ گئیں تھیں۔ سمندر کا پانی پیچھے ہٹ رہا تھا اور سورج چمک رہا تھا، جس سے مچھلیوں کے خشک ہو کر مرنے کا خطرہ تھا۔

لڑکے نے ایک ایک کر کے ستارے مچھلیاں اٹھانی شروع کیں اور انہیں سمندر میں پھینکنے لگا۔ دور سے ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ قریب آیا اور بولا، “تم یہ کیوں کر رہے ہو؟ یہاں بہت زیادہ ستارے مچھلیاں ہیں۔ تم سب کو نہیں بچا سکتے۔”

لڑکے نے ایک اور ستارہ مچھلی اٹھایا، نرمی سے سمندر میں پھینکا اور کہا، “میں نے اس کے لیے فرق پیدا کیا۔”

آدمی رکا، مسکرایا، اور لڑکے کے ساتھ مچھلیاں بچانے لگا۔ جلد ہی، ساحل پر موجود دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے، اور مل کر انہوں نے سینکڑوں مچھلیاں بچائیں۔

کہانی کا سبق:
چھوٹے نیک اعمال بھی بڑا فرق ڈال سکتے ہیں۔ ایک اچھے کام کی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھو۔

طے شدہ مینڈک - کہانی 26

گھنے جنگل میں مینڈکوں کے ایک گروپ نے ایک لمبی ٹاور کے اوپر چڑھنے کی دوڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ دور دور سے مینڈک یہ تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہوئے، جن میں سے اکثر کو یقین تھا کہ یہ مینڈک کامیاب نہیں ہوں گے۔

جیسے ہی دوڑ شروع ہوئی، مینڈک چڑھنا شروع ہو گئے۔ لیکن دیکھنے والے چلاتے رہے، “یہ ناممکن ہے! ٹاور بہت اونچا ہے! تم کامیاب نہیں ہو سکتے!” یہ سن کر کچھ مینڈکوں نے ہار مان لی اور چڑھنا چھوڑ دیا۔

لیکن ایک مینڈک مسلسل چڑھتا رہا، ان حوصلہ شکن آوازوں کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ تماشائی چلّا چلّا کر کہتے رہے، “تم گر جاؤ گے! اپنی محنت ضائع نہ کرو!” لیکن وہ عزم والا مینڈک آہستہ آہستہ ٹاور کے اوپر پہنچ گیا۔

جب دوڑ ختم ہوئی، دوسرے مینڈک اس کے پاس جمع ہوئے اور پوچھا، “تم نے یہ کیسے کیا؟” حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ جیتنے والا مینڈک بہرا تھا۔ اس نے حوصلہ شکن الفاظ سنے ہی نہیں اور صرف اپنی چڑھائی پر دھیان دیا۔

کہانی کا سبق:
اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھیں اور منفی باتوں کو اپنی راہ میں نہ آنے دیں۔

مہربان اجنبی - کہانی 27

ایک نوجوان، ارجن، ایک دور دراز گاؤں سے گزر رہا تھا جب اس کی گاڑی خراب ہو گئی۔ کوئی موبائل سگنل نہ تھا اور رات ہونے والی تھی، اس نے بے بسی محسوس کی۔ اچانک، ایک گاؤں والا وہاں سے گزرا اور اس کی حالت دیکھ کر مدد کی پیشکش کی۔

گاؤں والے نے ارجن کو اپنے گھر بلایا، کھانا فراہم کیا، اور رات رہنے کی جگہ دی۔ اگلی صبح، گاؤں والے نے ارجن کی گاڑی ٹھیک کرنے میں مدد کی۔ ارجن شکر گزار تھا اور شکریے کے طور پر رقم پیش کی، لیکن گاؤں والے نے انکار کر دیا۔ اس نے کہا، “نیکی کا کوئی مول نہیں ہونا چاہیے۔ بس یہ وعدہ کرو کہ جب تمہیں موقع ملے، کسی اور کی مدد ضرور کرنا۔”

کئی سال بعد، ارجن نے گاؤں والے کی بات یاد کی جب اس نے ایک اجنبی کو شاہراہ پر پھنسے ہوئے دیکھا۔ اس نے گاڑی روکی اور مدد کی، اسی نیکی کو آگے بڑھاتے ہوئے جو کبھی اس کے ساتھ کی گئی تھی۔

کہانی کا سبق:
نیک اعمال نیکی کی زنجیر پیدا کر سکتے ہیں۔ نیکی کو آگے بڑھاؤ۔

سست کسان اور اس کا پوشیدہ خزانہ - کہانی 28

رامیش نام کا ایک کسان تھا جس کے تین سست بیٹے تھے۔ بیٹے کبھی کھیت کے کام میں مدد نہیں کرتے تھے اور اپنا وقت بیکار میں گزارتے تھے۔ رامیش اپنی زمین کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھا، لہٰذا اس نے ایک منصوبہ بنایا۔

ایک دن، اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا، “میں نے اپنے کھیت میں خزانہ دفن کیا ہے۔ اگر تم پورے کھیت کو کھودو گے، تو تمہیں وہ خزانہ ملے گا۔” بیٹے دولت کے لالچ میں خوش ہو کر کھیت میں پہنچ گئے اور زور و شور سے کھودائی کرنے لگے۔

انہوں نے کھیت کا ہر کونہ کھود ڈالا، لیکن کوئی خزانہ نہ ملا۔ مایوس ہو کر وہ اپنے والد کے پاس لوٹے۔ رامیش مسکرایا اور کہا، “تم نے پہلے ہی خزانہ حاصل کر لیا ہے۔ کھیت کھود کر تم نے اسے فصل بونے کے لیے تیار کر دیا ہے۔ اب اگر تم بیج بوؤ اور انہیں پانی دو، تو حقیقی خزانہ فصل کی صورت میں ملے گا۔”

بیٹوں نے اپنے والد کی دانشمندی کو سمجھا اور کھیت پر کام کرنا شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ، وہ محنتی کسان بن گئے اور اپنے خاندان کو خوشحال بنا دیا۔

کہانی کا سبق:
محنت کا ہمیشہ صلہ ملتا ہے، چاہے انعام فوری نظر نہ آئے۔

تین دوست اور خزانے کا نقشہ - کہانی 29

تین دوست—علی، سارہ، اور زین—ایک پرانے خزانے کا نقشہ گھر کی چھت صاف کرتے ہوئے ملے۔ پرجوش ہو کر، انہوں نے خزانے کی تلاش کے لیے نقشے کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔

نقشہ انہیں ایک گھنے جنگل، ایک کھڑی پہاڑی، اور ایک چوڑی ندی کے پار لے گیا۔ راستے میں، انہیں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا: وہ راستہ بھٹک گئے، جنگلی جانوروں کا سامنا کیا، اور ندی پار کرنے کا حل نکالا۔ لیکن انہوں نے مل کر کام کیا اور اپنی طاقتوں کو یکجا کر کے ہر رکاوٹ کو عبور کیا۔

جب وہ آخر کار نشان زدہ جگہ پر پہنچے، تو انہوں نے زمین میں دفن ایک صندوق پایا۔ اسے کھولنے پر، انہوں نے ایک نوٹ دیکھا جس پر لکھا تھا: "حقیقی خزانہ وہ سفر اور وہ دوست ہیں جو آپ کے ساتھ کھڑے رہے۔"

ابتدائی طور پر مایوس ہونے کے باوجود، انہوں نے پیغام کی سچائی کو تسلیم کیا۔ ان کے سفر نے ان کی دوستی کو مضبوط کیا اور انہیں ٹیم ورک، مسئلہ حل کرنے، اور استقامت سکھائی۔

کہانی کا سبق:
سفر اور اس دوران بننے والے تعلقات مادی دولت سے زیادہ قیمتی ہیں۔

پنسل اور عقلمند استاد - کہانی 30

ایک دن، ایک چھوٹا طالب علم اپنے استاد کے ساتھ ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھا، اسے پنسل تراشتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ لڑکے نے تجسس سے پوچھا، “استاد، آپ ہمیشہ پنسل کیوں رکھتے ہیں؟ قلم کیوں نہیں؟”

استاد مسکرائے اور بولے، “کیونکہ پنسل ہمیں زندگی کے بارے میں پانچ اہم سبق دیتی ہے۔”

لڑکے کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں، اور وہ غور سے سننے لگا۔ استاد نے کہا:

  1. پنسل کو درست کیا جا سکتا ہے: “جب آپ غلطی کرتے ہیں، تو اسے مٹا کر دوبارہ کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں، ہم اپنی غلطیوں کو درست کر کے ان سے سیکھ سکتے ہیں۔”

  2. پنسل کو تراشنے کی ضرورت ہوتی ہے: “کارآمد رہنے کے لیے، پنسل کو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے جب اسے تراشا جاتا ہے۔ زندگی کی مشکلات ہمارے کردار کو نکھارتی ہیں۔”

  3. پنسل نشان چھوڑتی ہے: “آپ جو بھی کرتے ہیں، وہ دنیا پر نشان چھوڑتا ہے۔ ہمیشہ اپنے اعمال کے بارے میں محتاط رہیں۔”

  4. پنسل کی قدر اندر ہوتی ہے: “پنسل کا سب سے اہم حصہ اس کے اندر کا سیسہ ہے، جیسے ہماری حقیقی قدر ہماری اندرونی خوبیوں میں ہے۔”

  5. پنسل مستحکم ہاتھ میں بہترین کام کرتی ہے: “پنسل کی طرح، ہم بھی تب ہی بہترین کام کرتے ہیں جب ہمیں حکمت اور محبت سے سنبھالا جائے۔”

لڑکا مسکرایا اور بولا، “شکریہ استاد! میں زندگی میں پنسل جیسا بننے کی کوشش کروں گا۔”

کہانی کا سبق:
زندگی کے سبق سادہ لیکن گہرے ہو سکتے ہیں۔ عاجزی اور سیکھنے کی آمادگی کے ساتھ زندگی کو اپنائیں۔